راولپنڈی رِنگ روڈ، وہ سب کچھ جو آپ کو معلوم ہونا چاہیئے

کسی بھی ملک کی ترقی اس کے منصوبہ جات کی مرہونِ منت ہوتی ہے جن میں ذرائع آمد و رفت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔

invest with imarat

Islamabad’s emerging city centre

Learn More

پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد صنعتی میدان میں بڑی ترقی کی ضرورت تھی کیونکہ اس کا ذیادہ تر انحصار زراعت پر تھا، جس کے لیے زرائع آمد و رفت اس وقت کی ضرورت تھی۔ کسانوں اور دیہی علاقے کے لوگ اپنی اجناس بروقت شہری علاقوں تک نہیں پہنچا سکتے تھے۔ حکومتیں آئیں، تبدیل ہوئیں اور صنعتی ترقی بڑھتی گئی، آمد و رفت پر بھی کام ہوا، ملکی آبادی بڑھتی گئی اور ٹریفک میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔

پاکستان میں آج بھی سڑکوں اور ٹریفک کے دباؤ سے بچنے کے لیے ایک جامع پلان اور انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے۔

گزرتے وقت کے ساتھ شہر کی اندرونی ٹریفک کے بہاؤ اور دباؤ کو قابو کرنے کے لیے ٹریفک پلان اور روڈ میپ ترتیب دیے جانے لگے لیکن دوسرے شہروں سے آنے اور جانے والی ٹریفک سے شہری ٹریفک کا ٹوٹتا تسلسل نا قابلِ برداشت ہونے لگا۔ شہروں سے باہر نکلنا اور داخل ہونا گھنٹوں پر محیط ہونے لگا۔ بے ہنگم ٹریفک کے دباؤ کو روکنےکے لیے رنگ روڈ ایک بہترین لائحہ عمل کے طور پر سامنے آیا۔

 

رِنگ روڈ کا مقصد

رِنگ روڈ کا سب سے عام مقصد شہر کے مرکز میں ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے میں مدد کرنا ہے۔ وہ ڈرائیورز جنھیں شہر کے مرکز میں جانے یا وہاں قیام کرنے کی ضرورت نہی، اُن کے پاس شہر کے ارد گرد ایک متبادل راستے کی آپشن موجود ہوتی ہے۔ رِنگ روڈز مضافاتی علاقوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہیں اور ایک موثر سفر بھی ممکن بناتی ہیں۔

راولپنڈی رِنگ روڈ

پنجاب حکومت کی طرف سے اربوں روپے لاگت پر مشتمل راولپنڈی رِنگ روڈ کا آغاز کیا گیا۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں بڑھتی ہوئی ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے سابقہ حکومتی دور میں رِنگ روڈ کے منصوبے کی ابتدائی طور پر منظوری دی گئی تھی جس کے تحت راولپنڈی کے علاقے روات سے ایک سڑک تعمیر کی جانی تھی جسے شہر کے باہر سے ہوتے ہوئے ترنول کو جی ٹی روڈ اور پھر موٹروے کو ملانا تھا۔

اس رِنگ روڈ کی تعمیر سے جی ٹی روڈ پنجاب سے صوبہ خیبر پختونخوا جانے والی ٹریفک اور بالخصوص ہیوی ٹریفک نے رِنگ روڈ استعمال کرنا تھا جس کی وجہ سے اسلام آباد ہائی وے پر ہیوی ٹریفک کا دباؤ کم ہونا تھا۔

ن لیگ کے دور سے شروع ہونے والے اس منصوبے پر موجودہ حکومت نے 2020 میں عملدرآمد شروع کیا۔ نیسپاک کی فیزیبیلٹی رپورٹ کو ایشیئن انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک نے منظور کیا۔

 

رِنگ روڈ سکینڈل

پھر راولپنڈی رنگ روڈ سے متعلق ایک سکینڈل نے جنم لیا۔ میڈیا کی خبروں اور اطلاعات کے مطابق اس منصوبے کے ڈیزائن میں تبدیلی کی گئی ہے تاکہ رنگ روڈ کے قریب واقع ہاؤسنگ سوسائیٹیز کو فائدہ پہنچ سکے اور اس تبدیلی میں با اثر افراد جن میں مبینہ طور پر وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی زلفی بخاری اور وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کے نام سامنے آئے۔

وزیراعظم عمران خان نے اس منصوبے میں بےضابطگیوں اور بے قاعدگیوں سے متعلق وزیراعلیٰ پنجاب کو اس پر انکوائری کا حکم دیا۔

 

فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ

فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بھیجی گئی رپورٹ میں رِنگ روڈ کے نقشے اور الاٹمنٹ کو تبدیل کر کے کچھ ہاؤسنگ سوسائیٹیز کو فائدہ پہنچایا گیا تھا۔

اس رپورٹ میں ذکر کیا گیا کہ کمشنر محمد محمود اور لینڈز ایکوزیشن کلیکٹر وسیم علی تابش نے دو سے تین ارب روپے اس منصوبے سے متعلق زمین کی خریداری میں خرچ کیے اور سابق کمشنر نے اپنے بھائی کو فائدہ پہنچانےکے لیے اختیارات کا ناجائز استعال کیا۔

رپورٹ میں کچھ اپوزیشن کی سیاسی شخصیات، ریٹائرڈ فوجی اور سول بیوروکریٹس کو فائدہ پہنچانے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔

ڈپٹی کمشنر راولپنڈی اور ڈپٹی کمشنر اٹک کے علاوہ اے ڈی سی آر راولپنڈی، اے سی راولپنڈی صدر اور فتح جنگ اور چیف آفیسر فتح جنگ تحصیل کونسل کو تبدیل کر دیا گیا۔

رپورٹ میں یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ ان ہاؤسنگ سوسائیٹیز میں موجودہ یا ریٹائرڈ افسران کے بے نامی حصہ دار ہونے کے حوالے سے تحقیقات کی جائیں۔

قومی احتساب بیورو

قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے راولپنڈی رِنگ روڈ کے منصوبے میں مبینہ بدعنوانی کے معاملے کی تحقیقات کا حکم ڈی جی نیب راولپنڈی کو دیا۔

نیب کی طرف سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ نیب اس معاملے کا ہر پہلو سے جائزہ لے گا تاکہ ذمہ داروں کا تعین کر کے ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔

 

وفاقی وزرا کا سکینڈل میں نام

وزیر اعظم کے سابق معاون زلفی بخاری نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ٹوئٹر پر کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے ہمیشہ کہا ہے کہ اگر کسی سرکاری عہدیدار کا نام کسی انکوائری میں آجائے تو اسے الزامات سے پاک ہونے تک اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے اور میں رنگ روڈ معاملے میں اپنا نام آنے پر یہ مثال قائم کرنا چاہتا ہوں۔

وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ اگر میں ہاؤسنگ سوسائیٹیز کے کچھ افراد کو جانتا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں اس میں ملوث ہوں۔

رِنگ روڈ کا ٹھیکہ ایف ڈبلیو او کو تفویض

فرنٹیئر ورکس تنظیم، ایف ڈبلیو او ایک فوجی انجینئرنگ تنظیم ہے، اور پاک فوج کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایک بڑی کمانڈ ہے جسے 1966 میں قائم کیا گیا۔ ایف ڈبلیو او میں فعال ڈیوٹی افسران، سائنسدان اور انجینئرز شامل ہیں۔

اس منصوبے کی تعمیر کا ٹھیکہ حال ہی میں ایف ڈبلیو او کو سونپا گیا ہے۔ جس کی لاگت کا تخمینہ 22 ارب 80 کروڑ روپے ہے۔ جبکہ چین کی ایک کمپنی کے وفد نے راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (آر ڈی اے) کے دفتر کے دورے کے دوران نالہ لئی ایکسپریس وے اور فلڈ چینل کے منصوبوں میں دلچسپی کا اظہار کیا۔

ایف ڈبلیو او نے تخمینہ لاگت سے 30 کروڑ روپے کم قیمت بتائی اور کمیٹی کی جانب سے متعلقہ حکام کی موجودگی میں تکنیکی اور مالیاتی بولیاں شروع کیے جانے کے بعد ایف ڈبلیو او سب سے کم بولی دینے والے کے طور پر سامنے آیا۔

راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے پر تعمیراتی کام اگلے ماہ اپریل سے شروع ہونے کا امکان ہے جبکہ علاقے میں زمین کا حصول شروع ہو چکا ہے اور بانتھ سے ٹھلیاں تک رنگ روڈ کے لیے کل 8 ہزار 992 کنال رقبہ استعمال کیا جائے گا۔

منصوبے کا افتتاح

رِنگ روڈ منصوبے کا افتتاح ہفتے کے روز وزیراعظم عمران خان نے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ علاقے میں تبدیلی لائے گا۔ شہر روز بروز پھیل رہے ہیں اس لیے شہروں کے ماسٹر پلان بہت ضروری ہیں۔

اس منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف راولپنڈی، اسلام آباد میں ٹریفک کے مسائل پر قابو پانے میں مدد ملے گی بلکہ جڑواں شہروں اور پشاور تک سفر تیز رفتار اور آسان ہو جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ منصوبے کے لئے زمینوں کی خریداری اور ادائیگیوں کے عمل کو صاف شفاف رکھا جائے اور منصوبے کو مزید تنازعات سے بچانے کے لئے اس پر کام جلد شروع کیا جائے۔

مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔

invest with imarat Islamabad’s emerging city
centre
Learn More
Scroll to Top
Scroll to Top