دلچسپ معلومات پر مبنی لاہور کے قدیم دروازوں کی داستان

اندرونِ لاہور میں، جسے پرانا لاہور بھی کہا جاتا ہے، مغلیہ دورِ حکومت کے دوران دشمن کے حملوں سے بچاؤ کے لیے فصیلیں یا دیواریں تعمیر کی گئی تھیں۔ اِن میں سے کچھ ابھی بھی موجود ہیں اور تاریخ کے انمٹ نقوش کی عکاسی کرتے ہیں۔

invest with imarat

Islamabad’s emerging city centre

Learn More

تاریخی شہر اپنی تہذیب و ثقافت اور طرزِ تعمیر کی بنا پر مشہور ہوتا ہے۔ ہر گزرتے دور کے ساتھ اس کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے اور تاریخ سے لگاؤ رکھنے والے اس کے طول و عرض، رہن سہن اور مذہبی اقدار کے علم کی جستجو میں اس کے قریب ہوتے جاتے ہیں۔

شاہ عالمی دروازه، موچی دروازہ، اکبری دروازہ، یکی دروازہ، مستی دروازہ، ٹکسالی دروازہ اور موری دروازہ منہدم ہو چکے ہیں جبکہ بھاٹی دروازہ، دہلی دروازہ، کشمیری دروازہ، لوہاری دروازہ، روشنائی دروازہ اور شیرانوالہ دروازہ آج بھی قائم ہیں۔

دہلی دروازہ

دہلی دروازہ جو چار سو سال پُرانا دروازہ ہے مغلوں کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔ جسے مرکزی دروازے کی حیثیت حاصل تھی اور ہر شام اس کے دروازے بند کر دیے جاتے تھے۔

مغلوں کے دور میں یہ سب سے مصروف گزرگاہ ہوا کرتی تھی۔ دہلی دروازے سے شاہی وفد لاہور میں داخل ہوتا تھا۔ اس دروازے کے عقب میں شاہی حمام اور وزیر خان مسجد موجود ہیں۔ مسجد وزیر خان کی تعمیر دسمبر 1461 میں سات سال کے طویل عرصے کے بعد تعمیر کی گئی تھی۔ یہ گیٹ وزیر خان مسجد کی طرف جانے والے بازار میں کھلتا ہے اور آگے شاہ عالم مارکیٹ اور سوہا بازار کی طرف جاتا ہے۔ مشہور اکبری منڈی بھی دہلی دروازے کے ساتھ ہی واقع ہے۔

 

لوہاری دروازہ

لوہاری دروازہ اس قدیم شہر میں جنوب کی جانب واقع ہے۔ اس کے دائیں طرف شاہ عالمی جبکہ بائیں طرف موری دروازہ ہے اور اس کے بالمقابل انارکلی بازار شروع ہوجاتا ہے۔ بعض مورخین کے مطابق پرانا شہر لاہور اصل میں اچھرہ کے قریب واقع تھا اور یہ دروازہ اسی طرف کھلتا تھا۔ اس لیے اس کا نام لوہاری گیٹ پڑا۔ اس نام کی جڑیں اردو زبان میں بھی ملتی ہیں، جس میں "لوہار” کا مطلب لوہے کا کام کرنے والا ہے۔

موتی دروازہ المعروف موچی دروازہ

یہ شہر لاہور کے تیرہ دروازوں میں سے ایک ہے جو مغل شہنشاہ اکبر کے دور میں تعمیر کیے گئے تھے اور شہر کی حفاظت کے لیے تیس فٹ اونچی قلعہ بند دیوار سے منسلک تھے۔

موچی دروازہ اپنا وجود کھو چکا ہے مگر اس دروازے کے نام میں تضاد پایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس دروازے کے پاس موچی بیٹھا کرتے تھے اور جوتے ٹھیک کرتے تھے اس وجہ سے اس کا نام موچی دروازہ پڑ گیا تھا جبکہ کچھ مورخین کے مطابق اس کا نام ایک ایسے شخص کے نام پر رکھا گیا ہے جو مغل دور میں دروازے کے محافظ تھے، جس نے ساری زندگی دروازے کی حفاظت اور دیکھ بھال کی۔
موچی گیٹ پر قدیم زمانے کے فن تعمیر کی عکاسی کرنے والے شاہکار موجود ہیں۔ مبارک حویلی، نثار حویلی اور لال حویلی بھی یہیں موجود ہیں۔

 

شاہ عالم دروازہ

شاہ عالم گیٹ کا نام بادشاہ اورنگزیب کے بیٹے شاہ عالم کے نام پر رکھا گیا ہے۔ ان کی وفات سے پہلے اس دروازے کو ’’بھیڑ والا دروازہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ جس کا نام بعد میں تبدیل کر کے شاہ عالم دروازہ رکھ دیا گیا۔

سن 1947ء کی تقسیم کے فسادات کے دوران اِس گیٹ کو جلا دیا گیا تھا۔ شاہ عالم مارکیٹ لاہور کی سب سے بڑی تجارتی مارکیٹوں میں سے ایک ہے، "شاہ عالم مارکیٹ” یا شاہلمی جیسا کہ مقامی لوگ اسے کہتے ہیں، گیٹ کی جگہ کے قریب موجود ہے۔ شاہ عالم مارکیٹ میں 25 سے زائد بازار ہیں جن میں پاپڑ منڈی، رنگ محل اور صرافہ بازار مشہور ہیں۔

بھاٹی گیٹ

شہر کے مغرب میں واقع یہ دروازہ ان چھ دروازوں میں سے ایک ہے جو آج تک سلامت ہیں۔ جب شہنشاہ اکبر نے شہر کو مشرق کی طرف پھیلایا اور اسے نو اضلاع میں تقسیم کیا تو بھاٹی گیٹ اور اس کے بازار نے مشرق میں مبارک خان اور مغرب میں تلوارہ کے درمیان سرحد قائم کی۔ یہ دروازہ بھاٹ قوم کے نام سے منسوب ہے۔ بھاٹی گیٹ سے باہر حضرت داتا علی ہجویری رحمۃاللہ علیہ کا مزار واقع ہے۔ ہر جمعرات کی شام قوال اور نعت خواں قوالی اور حمد و ثنا پیش کرنے کے لیے یہاں جمع ہوتے تھے۔ آج بھی یہاں مذہبی خطبات و اجتماع کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

لاہور کے قدیم چیلسی گیٹ، موجودہ بھاٹی گیٹ کو بازار حکیماں کہا جاتا ہے جہاں ماضی میں لگنے والی ادبی بیٹھکوں میں بڑے بڑے ادیب اپنا کلام سناتے تھے۔ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال 1901ء سے 1905ء کے دوران بھاٹی دروازے کے قریب مکین رہے۔

 

کشمیری دروازہ

کشمیری دروازے کا نام اس کےکشمیر کی جانب رُخ پر رکھا گیا اس دروازے کے اندر کی جانب لاہور کا ایک قدیم اور بہت بڑا بازار ہے جو کشمیری بازار کے نام سے منسوب ہے۔

کشمیری گیٹ کا علاقہ مغلوں کی رہائش اور شاہی لوگوں کا مسکن تھا۔ سن 1910ء میں حکومت ہند کے صحافیوں نے کشمیری گیٹ کے آس پاس اپنے گھر آباد کیے جن میں کثیر تعداد میں بنگالی نسل کے لوگ تھے۔

شیرانوالہ دروازہ

شیرانوالہ دروازے کے باہر ایک سڑک ہے جو دائیں جانب فصیل شہر کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی شیرانوالہ دروازے کو کشمیری دروازے سے ملاتی ہے۔

مہاراجا رنجیت سنگھ کے دور میں ہمیشہ دو شیروں کے پنجرے اس دروازے کے اندر رکھے جاتے تھے۔ جس کی وجہ سے کوئی بیرونی مداخلت نہیں کرتا تھا۔ انگریزی عہد میں وہ پنجرے ہٹا دیے گئے مگر دروازے کا نام شیراں والہ دروازہ ہی رہا۔
اس دروازے کو مغلوں کے دور حکومت میں بنایا گیا تھا اور اس کا پُرانا نام خضری دروازہ بھی تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دور میں دریائے راوی شہر کے بہت نزدیک بہتا تھا اور حضرت خضرؑ اس دروازے سے نکل کر دریا کی جانب گئے تھے۔

 

اکبری دروازه، مستی دروا

اس دروازے کی اہمیت اس لحاظ سے بہت زیادہ ہے کہ یہ ایک تو قلعہ کے بالکل نزدیک واقع ہے، دوم اس دروازے کے اندر شہنشاہ اکبر کی والدہ مریم زمانی نے 1614 میں بیگم شاہی مسجد تعمیر کرائی جو اندرونی نقش و نگار اور خوبصورتی کی بدولت بہت مشہور ہوئی۔

دہلی دروازے سے شاہی خاندان ودیگر امرائے سلطنت قلعہ میں داخل ہونے کے لیے بیگم شاہی مسجد کے پاس سے گزرتے تھے۔ کہا جاتا ہے اس دروازے کا اصل نام مسجدی دروازہ تھا جو کثرتِ استعمال سے مستی دروازہ کہا اور سنا جانے لگا۔ یہ کشمیری دروازے کی دائیں طرف اور شاہی قلعہ کے بالکل عقب میں واقع ہے۔

اس دروازے کی ایک خاصیت یہ ہے کہ یہاں جوتوں کا وسیع کاروبار ہے جس میں ثقافتی اور غیر ثقافتی جوتوں کی خریدو فروخت کی جاتی ہے۔

 

یکی دروازہ

یکی دروازہ ایک صوفی پیر زکی شہید کے نام سے منسوب ہے۔ جو بعد میں تبدیل ہو کر یکی کے نام سے مشہور ہو گیا۔ یکی پیر نے حملہ آوروں سے شہر لاہور کو محفوظ کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا جو مغلیہ محاصرے کے وقت دروازے کی حفاظت پر مامور تھے۔ مشہور یوں ہے کہ پیر ذکی کا سر گردن سے جدا ہو گیا تو جسم اس مقام تک دشمنوں سے لڑتا چلا گیا جہاں اب جسم کی قبر ہے اور سر کی قبر شہر کے اندر ہے۔ انگریز دور میں یہ دروازی خستہ حالی کے باعث گرا دیا گیا تھا۔

موری دروازہ

موری دروازہ جیسا کہ اپنے نام سے ظاہر ہے ایک چھوٹا دروازہ تھا، لاہور کے تمام دروازے موری دروازے سے حجم میں بڑے تھے۔ یہ لوہاری اور بھاٹی دروازے کے درمیان میں واقع ہے اس دروازے کو شہر سے ضائع شدہ سامان کو باہر لے جانے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔

 

ٹکسالی دروازہ

ٹکسالی دروازہ بھی مغلوں کے دور عہد میں تعمیر کیا گیا تھا یہاں ایک بہت بڑا جوتوں کا بازار بھی ہے جو شیخوپورہ بازار کے نام سے مشہور ہے اس دروازے کے اندر کی جانب بہت لذیذ پکوان کی بہت سی اقسام ملتی ہیں بادشاہی مسجد اس کے قریب واقع ہے اور لاہور کا مشہور بازارِ حُسن جسے شاہی محلہ بھی کہا جاتا ہے اس کے قریب واقع ہے۔

اس دور کی کرنسی سِکّوں کی صورت میں تھی جن کی تیاری کے لیے ایک ٹکسال خانہ تعمیر کرایا گیا تھا۔ جس کے سبب اس دروازے کا نام ٹکسال دروازہ رکھ دیا گیا۔

روشنائی دروازہ

اس دروازے سے مختلف روایتیں منسوب ہیں۔ دروازے کے سامنے دریائے راوی پر ہندو عورتیں دیے جلایا کرتی تھیں، دوسرا یہ کہ اس کے قریب کتابوں کی ایک گلی تھی اور روشنائی کا مطلب وہ سیاہی ہے جس سے لکھا جاتا تھا۔

اور پھر اس دروازے سے ملحقہ حضوری باغ جس میں شام کے وقت روشنیاں منور کی جاتی تھیں۔ اس دروازے کو مغل دور میں شاہی افراد کی گزر گاہ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔

invest with imarat Islamabad’s emerging city
centre
Learn More
Scroll to Top
Scroll to Top