سیاحت سے ملکی معیشت کا فروغ کیسے ممکن ہے؟

کیا آپ کو معلوم ہے کہ 2018 میں پاکستان میں آئے بین الاقوامی سیاحوں کی تعداد 1.9 ملین سے زائد تھی؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ان سیاحوں نے پاکستان میں 31 کروڑ ستر لاکھ امریکی ڈالر خرچ کیے جس سے گذشتہ برس قومی آمدنی کا 8 فیصد سیاحت کے باعث رہا؟

invest with imarat

Islamabad’s emerging city centre

Learn More

کچھ عالمی حقائق

سیاحت کے لحاظ سے دنیا کے وہ مُلک جو سب سے زیادہ زر مبادلہ کما رہے ہیں اُن میں اسپین، فرانس، امریکا، اٹلی، چین، میکسیکو، جرمنی، ترکی اور برطانیہ شامل ہیں۔

 

 

اگر اس فہرست کو تھوڑا سا اور بڑھا دیا جائے تو اِس میں مراکش اور مالدیپ بھی آتے ہیں جو ہیں تو چھوٹے سے مُلک مگر اُن کی قومی آمدن کا دارومدار صرف سیاحت پر ہے۔ مالدیپ کی کُل آبادی 4 سے 5 لاکھ ہے لیکن اپنی معیشت کا 22 فیصد حصہ یہ سیاحت سے کماتا ہے۔ یوں ہمارے ہمسائے بھارت میں بھی سالانہ ایک کروڑ سے زائد سیاہ آتے ہیں۔

 

اُن حقائق کا پاکستان سے موازنہ

سیاحت کے لحاظ سے اگر دنیا کے دس بہترین ممالک کا موازنہ پاکستان سے کیا جائے تو ان ممالک کی سیاحت سے حاصل کی گئی کُل آمدنی اور پاکستان کی سیاحتی آمدنی کا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ ہمارا ملک سیاحتی مقامات اور موسموں میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا مگر ہم سے سیاحت کے ہر پیرائے میں پیچھے ممالک اپنے اس سیکٹر کی ترقی سے بہت آمدن حاصل کررہے ہیں۔

 

ورلڈ ٹورزم اینڈ ٹریول کونسل کی رپورٹ

ورلڈ ٹورزم اینڈ ٹریول کونسل نے 2018 میں اس امر کی نشاندھی کی تھی کہ پاکستان سیاحتی صنعت کی ترقی سے ایک دہائی میں 39.8 ارب ڈالر کما سکتا ہے۔ موجودہ حکومت بھی اس بات کی خواہاں ہے کہ 2025 تک پاکستان کی معیشت میں سیاحت ایک ٹریلین روپے تک پہنچ جائے۔

 

 

پاکستان میں سب سے زیادہ سیاح برطانیہ سے آتے ہیں، دوسرے نمبر پر امریکہ سے، تیسرے نمبر پر چین، پھر تھائی لینڈ اور جاپان سے آتے ہیں۔

 

پاکستان میں سیاحت کی اقسام

پاکستان میں سیاحت کو مختلف اقسام میں ترتیب دیا جاسکتا ہے۔ یوں سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ کس ضمن میں کیا تبدیلیاں ضروری ہیں۔

پہلی قسم تو اُن کی ہے کہ جو لوگ باہر رہتے ہیں مگر پاکستان ہی سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ اپنے خاندان سے ملنے مُلک واپس آتے ہیں۔ ان میں سے عموماً گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیوں میں پاکستان آتے ہیں اور اپنی فیملی کے ہمراہ شمالی علاقہ جات سمیت مُلک کے مختلف حصوں کا رخ کرتے ہیں۔

 

 

دوسری قسم مذہبی سیاحت کی ہے۔ پاکستان میں ہندوؤں کے تاریخی مندر، سکھوں کے مذہبی مقامات، ٹیکسلا اور گندھارا میں بدھ مت کی تاریخی جگہیں، آثارِ قدیمہ ہیں اور علاوہ اِس کے صوفی ازم سے شغف رکھنے والوں کے لیے بھی بہت کچھ ہے۔

تیسری قسم میں غیر ملکی افراد شامل ہیں جو خوبصورت مناظر، تاریخی مقامات اور ثقافتی ورثے کو دیکھنے کے لیے پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔ یہ عموماً شنگریلا، وادئ ہنزہ، سوات، کاغان، ناران اور گلیات کا رخ کرتے ہیں۔

 

سیاحت کی ترقی کے لیے کچھ تجاویز

درج ذیل سیاحتی ترقی کے لیے کچھ تجاویز ہیں جن پر عمل کر کے مُلکی معیشت اور اِس سیکٹر کی ترقی کو ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔

 

سیاحتی مقامات پر توجہ

پاکستان کو اول تو سیاحتی مقامات پر خصوصاً توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی آنے والے کو کسی قسم کی کوئی شکایت نہ ہو نا ہی کسی ضمن میں دشواری اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔

 

 

تمام مقامات کی صفائی، ستھرائی، بحالی اور درستگی پر دھیان دینا چاہیے۔ بعد از بحالی ان کی سوشل میڈیا پر تشہیر کی جانی چاہیے اور انٹرنیشنل ٹریول کمپنیز سے رابطے کر کے اُن سے مشہور سیاحوں کی توجہ حاصل کرنی چاہیے۔

 

تعلیم میں سیاحت کی شمولیت

سیاحت پر مُلکی تعلیم میں خصوصاً توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تمام تاریخی مقامات، قدرتی خوبصورتی کی جگہوں پر اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے بچوں کو بھیجنا چاہیے تاکہ بچوں کو اپنی تعلیمی زندگی کے دوران ہی مُلک کی خوبصورتی، تاریخ، ورثے اور ثقافت کے بارے میں معلوم ہو۔

 

 

یوں وہ دنیا بھر میں پاکستان کے مثبت امیج کی بہتر انداز میں تشہیر کر سکیں گے اور دنیا کی توجہ اپنی جانب مائل بھی کر سکیں گے۔

 

ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کی ضرورت

حکومت کو ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے ضمن میں زیادہ سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کے لیے ٹرینوں، خصوصی پروازوں اور لگژری بسوں کا انتظام کرنا چاہیے۔

 

تشہیری مہم کی ضرورت

اس کے ساتھ ہی تمام تاریخی جگہوں کی جن وجوہات کے باعث مشہوری ہے، اُن وجوہات کی ڈیویلپمنٹ پر توجہ دینی چاہیے۔

 

 

مُلک کی سیکورٹی اور امن و امان کی صورتحال پہلے سے کئی بہتر ہے اور اس ضمن میں بھرپور تشہیری مہم چلائی جانی چاہیے اور پاکستان کا دنیا بھر میں مثبت چہرہ اور منفی پہلوئوں کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کامیابی کو سامنے لانا چاہیے۔

 

تربیتی مراکز کا قیام

مُلک بھر میں مہمان نوازی اور سیاحت کی باقاعدہ تعلیم ہونی چاہیے یعنی تربیتی مراکز ہونے چاہئیں جہاں لوگوں کو سیاحوں کے ساتھ برتاؤ کی مکمل ٹریننگ دی جا سکے۔

 

 

قیمتوں میں کمی

ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ سیاحتی مقامات پر اشیائے ضرورت اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کو ریگولیٹ کیا جائے۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ لوگ مقامی سیاحتی مقامات پر گرانی اور دستیابی کا گلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

 

سیاحتی انفراسٹرکچر پر توجہ کی ضرورت

سیاحتی انفراسٹرکچر پر بھی توجہ دینی چاہئے یعنی شمالی علاقہ جات پر شیشے کے پل کی تعمیر، مصنوعی جھیلیں، میگا نیچر پارکس اور بہترین عجائب گھر بنائے جا سکتے ہیں۔

 

 

پبلک پرائیویٹ شراکت، ایک کلیدی قدم

حکومت اور نجی شعبہ باہم مل کر بھی سیاحت کی صنعت کو فروغ دے سکتے ہیں۔ ایک ایسا نظام بنانا چاہیے جہاں حکومت غیر ملکی سیاحوں کو پاکستان لانے کا کردار ادا کرے اور جو نجی شعبہ ہے وہ اپنے مُلک میں آئے مہمانوں کا خیال رکھے اور اُن کی دیکھ بھال کرے۔ اس ضمن میں حکومت کو چاہیے کہ وہ نجی شعبے کو مراعات دے تاکہ یہاں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کار اس صنعت کی ترقی کے آلہ کار بن سکیں۔

 

مقامی تعمیر و ترقی پر توجہ

آخر میں ایک ضروری بات یہ بھی ہے کہ اضلاع سیاحت کی آمدنی سے براہ راست مستفید ہوں۔ سیاحت کی آمدنی سے مقامی افراد براہِ راست فائدہ حاصل کر سکیں جس سے اُن کے روشن مستقبل کی راہیں مزید روشن ہوں۔

 

 

اُن کے لیے ایسے منصوبے بننے چاہییں جہاں وہ سیاحوں کو راغب کر کے اپنے محصولات اور ملازمت کے مواقع بڑھا سکیں۔ یوں پاکستان کی سیاحتی صنعت بھی ترقی کرے گی اور اسی سے پاکستان کی معیشت بھی پھلے پھولے گی۔

 

مزید خبروں اور اپڈیٹس کے لئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔

invest with imarat Islamabad’s emerging city
centre
Learn More
Scroll to Top
Scroll to Top