ڈالر کی اونچی اُڑان: روپے کی قدر میں کمی کے ریئل اسٹیٹ شعبے پر اثرات

دینا کے 65 سے زائد ممالک میں زرِ مبادلہ کے لیے جو کرنسی استعمال ہوتی ہے وہ امریکی ڈالر ہے اور بلاشبہ بین الاقوامی سطح پر دنیا بھر میں تجارت کے کُل حجم کا 60 فیصد حصہ لین دین کے معاملات میں امریکی ڈالر کا مرہونِ منت ہے۔

invest with imarat

Islamabad’s emerging city centre

Learn More

گذشتہ ایک عرصے سے ترقی پذیر ممالک بالخصوص پاکستان میں امریکی ڈالر کی اونچی اُڑان نے معیشت کو مخدوش کر کے رکھ دیا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں روز بروز اضافے اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے جہاں پاکستان کی بین الاقوامی ادائیگیوں اور مالیاتی اداروں سے لیے گئے قرضوں کے حجم میں غیر یقینی حد تک اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے وہیں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے کاروباری شعبے بالخصوص ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

آج کل انگریزی کی ایک اصطلاح ‘ڈیویلیوایشن‘ کاروباری حلقوں میں ہر زبان زدِ عام ہے۔ تو چلیے پہلے تو یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کرنسی کے کاروبار میں اس اصطلاح کے معنی کیا ہیں؟

انگریزی زبان کی اصطلاح ‘ڈیویلیوایشن’ بنیادی طور پر سونے اور چاندی کی خرید و فروخت کے نرخوں کے علاوہ بیرونی ممالک کی کرنسی کے لحاظ سے کسی ملک کی مقامی کرنسی کی قدر میں کمی کو بیان کرتی ہے

کسی بھی ملک کے لیے کرنسی کی قدر کا تعین پیسے کی طلب اور رسد سے ہوتا ہے۔ لہذا ‘ڈیویلیوایشن‘ ایک ایسی اصطلاح ہے جو خاص طور پر اُس وقت استعمال ہوتی ہے جب کوئی ملک باضابطہ طور پر اپنی کرنسی کی قدر کو مقررہ شرح مبادلہ کے نظام کے تحت کم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

کرنسی کی قدر میں کمی کے حوالے سے معاشی ماہرین پر مشتمل ایک طبقے کی رائے ہے کہ کسی بھی ملک کی مقامی کرنسی کی قدر میں کمی اُس ملک کی معیشت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔ اس منطق کے لیے ماہرین یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ کرنسی کی قدر میں کمی کے باعث ملکی برآمدات میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے جو کہ روزگار کے مواقعوں کی دستیابی یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔

جبکہ معاشی ماہرین کا ایک دوسرا طبقہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ کسی بھی ملک کی مقامی کرنسی کی قدر میں کمی سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جیسا کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے حکومتی سطح پر حاصل کردہ قرضوں کی ادائیگیوں کے حجم میں اضافہ، غیر ملکی سرمایہ کاری پر مقامی کرنسی میں ادائیگیوں کے معاملے میں غیر متوقع اضافہ اور اسی طرح مہنگائی کی شرح بھی پھر زمین پر اپنے قدم نہیں جما پاتی اور لوگوں کی قوتِ خرید میں نمایاں کمی واقع ہو جاتی ہے۔

کرنسی کے بحران کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں کسی بھی ملک میں معاشی و سیاسی عدم استحکام بنیادی وجوہات میں سے ایک اور سب سے اہم ہے۔ اسی طرح سرمایہ کی بیرونِ ملک منتقلی یعنی اسپیشل کنورٹیبل کیپیٹل فلائٹ روپے کی قدر میں کمی کی ایک اور بنیادی وجہ قرار دی جا سکتی ہے۔

پاکستانی روپے اور امریکی ڈالر کا تقابلی جائزہ

مثال کے طور پر رواں سال مئی 2022ء میں پاکستانی روپے کی قدر کا اگر مئی 2018ء میں امریکی ڈالر اور دیگر مختلف ترقی یافتہ ممالک کی کرنسی کی قیمت سے موازنہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ گذشتہ چند سالوں سے پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ دیکھنے کو مل رہی ہے جو کہ تمام کاروباری حلقوں بشمول رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے بھی انتہائی پریشان کُن ہے۔ گذشتہ ایک دہائی کے دوران دنیا کی مضبوط ترین 20 کرنسیوں بشمول امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں 15 سے 124 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔

رواں سال 19 مئی کو اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی قیمتِ خرید 198 روپے 90 پیسے جب کہ قیمت فروخت 201 روپے 15 پیسے ریکارڈ کی گئی جبکہ سال 2018ء میں مئی کے اختتام پر اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی قیمتِ خرید 118 روپے 45 پیسے جب کہ قیمت فروخت 119 روپے 25 پیسے ریکارڈ کی گئی تھی۔

رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر اثرات

کسی بھی ملک کی مقامی کرنسی کی قدر میں کمی عدم مساوات کو تقویت بخشتی ہے۔ سرمایہ صرف چند ہاتھوں میں ہی گھومتا رہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں آمدن کے حجم میں نمایاں فرق دیکھنے کو ملتا ہے اور سرمایہ کاری سمیت دیگر معاشی مواقع کی منصفانہ تقسیم کو شدید دھچکا پہنچتا ہے۔

آپ ریئل اسٹیٹ کی ہی مثال لے لیجیے۔ یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ پاکستان میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے جائیداد کی قیمتیں اکثر نہ صرف عام آدمی بلکہ درمیانی درجہ کے خوشحال کاروباری شخص کی پہنچ سے بھی باہر ہو جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ریئل اسٹیٹ کے منصوبوں میں سرمایہ کاری میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملتی ہے۔

مثال کے طور پر امریکی مارکیٹ میں 500,000 ڈالر مالیت گھر کی قیمت فروخت اگر 550,000 ڈالر ہے اس سے قطع نظر کہ امریکی ڈالر کی قدر دیگر کرنسیوں کی نسبت روز بروز مستحکم ہوتے جا رہی ہے تو بھی اس گھر کی قیمتِ خرید میں کوئی نمایاں تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ ۔ تاہم ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان جہاں مقامی کرنسی کی قدر میں گذشتہ ایک عرصہ سے بتدریج کمی واقع ہو رہی ہیں، وہاں اگر ایک گھر کی مالیت 5،000،000 روپے ہے تو روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے گھر کی قیمتِ خرید میں یکدم اضافہ ہوتا ہے اور سرمایہ مارکیٹ میں گردش نہیں کر پاتا۔

کرنسی کی قدر میں کمی ریئل اسٹیٹ کے سرمایہ کاروں اور ان کے پیسے کے پورٹ فولیو پر منفی اثر مرتب کرتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جائیداد کی خرید و فروخت میں سرمایہ کاری پر منافع کی شرح طے کرنے سے قبل سرمایہ کار کو لازمی بین الاقوامی کرنسی بالخصوص ڈالر اور پاکستانی روپے کی قدر کے تقابلی جائزے کو لازمی ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیئے۔

کرنسی ڈیویلیوایشن کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی

ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ کا براہِ راست تعلق مقامی کرنسی کی قدر کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس کی معیشت کا انحصار عمومی طور پر غیر ملکی مالیاتی اداروں سے ملنے والے قرضوں، گرانٹ یا مالی امداد پر ہوتا ہے۔ ملک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان کی کرنسی مسلسل ڈیویلیوایشن کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد، لاہور اور کراچی کی ریئل اسٹیٹ میں غیر ملکی سرمایہ کار موجودہ ملکی صورتحال کے پیش نظر عدم اعتماد اور خوف میں مبتلا ہونے کی وجہ سے سرمایہ کاری کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہتا ہے اور پاکستان کا رئیل اسٹیٹ سیکٹر غیر ملکی سرمایہ کاری کے اپنے حصے سے محروم ہو جاتا ہے۔

رئیل اسٹیٹ کی مانگ میں کمی

پاکستان میں مہنگائی کی واحد اور بڑی وجہ روپے کی قدر میں کمی ہے۔ افراطِ زر اتنا زیادہ ہے کہ اسے ہائپر انفلیشن کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے اور پاکستانی رئیل اسٹیٹ کی قیمتوں میں اضافہ بھی افراطِ زر میں اسی اضافے کی وجہ سے ہے۔ دوسری طرف روزگار کے مواقع کی عدم دستیابی کی وجہ سے عام آدمی کی قوتِ خرید نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ ان حالات میں جہاں دوسرے تجارتی اور کاروباری شعبے متاثر ہوئے ہیں وہیں رئیل اسٹیٹ کی مانگ میں بھی نمایاں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ لوگ اپنی کم آمدن کی وجہ سے اتنی زیادہ قیمتوں پر پراپرٹی خریدنے کے قابل نہیں ہیں۔ خاص طور پر پاکستان کے بڑے شہروں جیسے اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں قیمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ ایک متوسط طبقے کا فرد ہی ان شہروں کے تعمیراتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔

پاکستان کی موجودہ سیاسی و معاشی صورتحال نے ملک میں کام کرنے والے رئیل اسٹیٹ کے اداروں کے لیے پریشان کُن صورتحال پیدا کر دی ہے۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کے اثرات پاکستان کی رئیل اسٹیٹ پر واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں لہذا پاکستانی روپے کی قدر میں اضافے اور استحکام کے لیے حکومت اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو اپنی پالیسیوں کو ریگولیٹ کرنا چاہیے۔ ملک میں افراطِ زر میں اضافے اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی کو خاص حد تک محدود رکھنے کے لیے مربوط منصوبہ بندی اور فعال مانیٹری پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔

مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔

invest with imarat Islamabad’s emerging city
centre
Learn More
Scroll to Top
Scroll to Top