پاکستان سمیت دنیا بھر میں رہائشی سہولیات کا بحران، حل کیا ہے؟

بین الاقوامی تحقیق کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں رہائشی سہولیات کے بحران سے سال 2025ء تک 1.6 ارب انسانوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

invest with imarat

Islamabad’s emerging city centre

Learn More

گھر کی ملکیت کے بین الاقوامی تصور نے غیرمساویت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ گھر کو قابلِ دسترس بنانے کے عمل کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ دنیا بھر کے کئی شہروں میں مالک مکان کرایہ دار سے ناصرف بھاری پیشگی رقوم وصول کرتے ہیں بلکہ کئی جگہوں پر ان کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ اگر اس شعبہ میں کچھ عالمی اسٹارٹ اَپس آجائیں تو کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے کرایہ کے گھروں کی ایک نئی مارکیٹ پیدا ہوسکتی ہے۔

دوسری جانب کسی بھی ملک کی معیشت میں ہمیشہ سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا کردار اہم رہا ہے۔ دُنیا بھر کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ درجنوں ممالک اس سرزمین پر موجود ہیں جن کی ترقی صرف اور صرف رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی وجہ سے ہوئی ہے اور ان ممالک کی ترقی قابل ِ فخر رہی ہے۔

رہائشی سہولیات یقینی بنانے کے اس سارے عمل میں براہِ راست  منسلک پراپرٹی اور ریئل اسٹیٹ کا کاروبار جو گزشتہ دہائی سے زوال کا شکار ہے نا صرف دنیا کے بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں بے روزگاری بلکہ حکومتی ریونیو میں کمی کا بھی سبب بنا ہے۔

بین الاقوامی ماہرین کا ماننا ہے کہ تھری ڈی پرنٹنگ سے لے کر بائیو مینوفیکچرڈ مٹیریل تک تعمیرات کے شعبے میں نئی ٹیکنالوجی کو ہاؤسنگ کے عالمی بحران کا تیزاور لم لاگت پر مشتمل حل قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ نئی ٹیکنالوجیز تعمیراتی ضیاع میں بڑے پیمانے پر کمی لا کر ناصرف ماحولیات پر کم بوجھ ڈالیں گی بلکہ یہ کاربن نیوٹرل یا کسی حد تک نیگیٹو بھی ثابت ہوں گی۔

پاکستان میں جاری تعمیراتی منصوبوں میں کاربن نیوٹرل ایک نیا نظریہ ہے لیکن دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اس نظریہ پر ایک عرصہ سے عمل درآمد جاری ہے۔ پاکستان میں تعمیر ہونے والی ہاؤسنگ سوسائٹیز اور بلند و بالا کثیر المنزلہ رہائشی عمارتوں کی تعمیر کے دوران کاربن کے اخراج سے ماحولیاتی آلودگی میں ایک بڑا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ کاربن نیوٹرل کا مطلب وہ عمارتیں ہیں جن سے کاربن کا اخراج صفر ہوتا ہے جب کہ نیگیٹو کا مطلب وہ عمارتیں ہیں جو نا صرف خود کاربن خارج نہیں کرتیں بلکہ اس کے برعکس ماحول سے کاربن کو جذب بھی کرتی ہیں۔ تعمیراتی صنعت میں ان نئی ٹیکنالوجیز کا پرجوش خیرمقدم کیا جارہا ہے۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ اب بھی موجود ہے کہ کیا یہ ٹیکنالوجیز توقعات پر پوری اُتر سکیں گی؟

حکومتِ پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کی کُل آبادی کا 27 فیصد حصہ ان افراد پر مشتمل ہے جو بغیر چھت کے کھلے آسمان تلے اپنی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ دنیا بھر میں ڈیڑھ ارب سے زائد افراد بغیر گھر کے اپنی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ انتہائی پسماندہ ماملک کے علاوہ اب ترقی یافتہ ممالک کو بھی ہاؤسنگ کے شدید بحران کا سامنا ہے جس کی ایک بنیادی وجہ غریب اور جنگوں سے تباہ حال ممالک کے شہریوں کی روزگار اور محفوظ مستقبل کی تلاش میں ترقی یافتہ ممالک کی طرف نقل مقانی ہے۔

یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ہاؤسنگ کی نئی ٹیکنالوجیز سے تعمیراتی ضیاع اور کاربن اخراج میں بڑے پیمانے پر کمی آئے گی تاہم جب تک اس کے ساتھ دیگر تبدیلیاں عمل میں نہ لائی جائیں، ہاؤسنگ بحران کو کم نہیں کیا جاسکتا۔ درحقیقت امریکا میں پری فیبریکیٹڈ گھروں کی ٹیکنالوجی 19ویں صدی کے اوائل سے موجود ہے اور ایک کمپنی نے امریکا میں کئی ہزار سستے گھر فروخت بھی کیے لیکن ایک صدی گزرنے کے بعد بھی تعمیراتی شعبے میں پری فیبریکیشن کو نئی ٹیکنالوجی تصور کیا جاتا ہے اور یہ اب بھی بڑے پیمانے پر استعمال میں نہیں آسکی۔ ہاؤسنگ کے عالمی بحران کو حل کرنے کے لیے نئی ٹیکنالوجیز کو استعمال میں لاتے وقت درج ذیل چیزوں کا خیال رکھا جانا ضروری ہے۔

ہاؤسنگ کی عالمی مارکیٹ اپنے پیشگی متعین کردہ معیارات کے گرد چل رہی ہے جس میں نئی تعمیرات اور ہوم اونرشپ پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ ہرچند کہ کسی بھی صنعت میں معیارات کا ہونا پیداواری صلاحیت میں اضافے اور لاگت میں کمی کا باعث ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر میکسیکو میں ریڈی میڈ ہوم کی ٹیکنالوجی کو جب کم مطلوب مقامات پر متعارف کرایا گیا تو وہاں ہاؤسنگ مارکیٹ کریش کرگئی۔ میکسیکو کے ان مقامات پرریڈی میڈگھر اب بھی خالی پڑے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں جو عمارتیں موجود ہیں ان میں سے دو تہائی عمارتیں 2050ء میں بھی زیرِ استعمال ہوں گی جو اس وقت کئی ڈھانچہ جاتی اور ماحولیاتی مسائل کا باعث بنیں گی جبکہ معیارِ زندگی پر ان کے اثرات اس کے علاوہ ہوں گے۔

دنیا بھر میں کئی گھرانے بینک سے مارگیج حاصل نہیں کرسکتے کیوں کہ وہ یا تو اِن فارمل معیشت کا حصہ ہیں یا ان کے پاس زمین کے ٹائٹل کے کاغذات نہیں ہیں۔ آمدنی کا ثبوت اور ڈاؤن پیمنٹ کی شرائط بھی کئی لوگوں کو مارگیج تک رسائی حاصل کرنے سے روک دیتی ہیں۔ فِن ٹیک میں جدت لاکر بے قاعدہ معیشت کا حصہ سمجھے جانے والے خاندانوں کی بے قاعدہ آمدنی کی تصدیق اور اسے تسلیم کرتے ہوئے انھیں ہاؤسنگ مارگیج کے اہل بنایا جاسکتا ہے۔ ا س سلسلے میں بلاک چین ٹیکنالوجی کا استعمال بھی سستے حل فراہم کرسکتا ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے روشن اکاؤنٹ کے بعد پاکستان میں سستے قرضوں پر اپنا گھر خریدنے کی ایک سکیم متعارف کروا رکھی ہے جسے روشن اپنا گھر سکیم کا نام دیا جائے گا۔

اس سکیم کے تحت دنیا بھر میں مقیم پاکستانی اپنے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کے ذریعے پاکستان میں کسی بھی جگہ گھر خرید سکیں گے۔ مختلف بینک بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اپنے گھر کے لیے پرائیویٹ بینک آسان قرضہ دیں گے اور کچھ خصوصی سہولیات بھی دی جائیں گی جو صرف اوورسیز پاکستانیوں کو میسر ہوں گی۔

مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ

invest with imarat Islamabad’s emerging city
centre
Learn More
Scroll to Top
Scroll to Top