ملکی ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو درپیش مسائل

ریئل اسٹیٹ ایسا سیکٹر ہے جس سے متعدد الائیڈ انڈسٹریز کا روزگار جڑا ہے جن میں سیمنٹ، اسٹیل، پینٹ، بلڈنگ میٹیریل اور آرکیٹیکچر وغیرہ شامل ہیں۔

invest with imarat

Islamabad’s emerging city centre

Learn More

پاکستان کی تاریخ کے مختلف ادوار میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے حوالے سے مختلف منصوبے بنائے گئے لیکن سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ان کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ موجودہ حکومت نے نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے نام سے ایک ایسا پراجیکٹ شروع کیا جس میں ہر غریب آدمی اپنے خوابوں کا مسکن بسا سکتا ہے۔ لیکن ہمیں اس سیکٹر کے دیرینہ مسائل کا غیرجانبدارانہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ آئیے آج اس تحریر میں ان مسائل کا بغور جائزہ لیں گے۔

پلاننگ کا فقدان اور اس کی اہمیت

کسی بھی شہر کا ماسٹر پلان اس شہر کی ترقیاتی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اگلے بیس سالوں کے لئے بنایا جاتا ہے۔ یہ ماسٹر پلان ماضی اور مستقبل کے اعداد و شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا جاتا ہے تاکہ مستقبل میں پیش آنے والی انفراسٹرکچر اور عوامی سہولیات کی ضروریات کا جائزہ لیا جا سکے۔

پاکستان میں بہت سارے ایسے چھوٹے بڑے شہر ہیں جہاں پر کبھی بھی سرے سے ماسٹر پلان بنایا ہی نہیں گیا یا پھر دستیاب دستاویزی پالیسی پر آج تک مکمل طور پر عمل درآمد ہی نہیں کیا جا سکا۔ چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں میں لوگوں نے ہجرت شروع کی تو آبادی کے تناسب اور چھوٹے شہروں کی ضروریات کو سمجھنے کے لئے ماسٹر پلان بنانے کی ضرورت پیش آئی۔ ایک اچھے ماسٹر پلان میں شہر کی مردم شماری کے حساب سے وہاں کے شہریوں کی سماجی و اقتصادی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے جن میں رہائشی، کمرشل علاقے، پارکس اور اندرون شہر کو آپس میں جوڑنے والا سڑکوں کا جال، یہ سب شامل ہیں۔ اسی لئے چھوٹے شہروں کا ماسٹر پلان بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ بڑے شہروں کا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہر شہر کی انفرادی مردم شماری بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے۔ بلاشبہ پرانے اعداد و شمار کی بنیاد پر شہر کی نئی تعمیراتی ضروریات کا اندازہ لگانا مشکل عمل ہے۔ موجودہ حکومت ملک کے 28 بڑے شہروں کے ماسٹر پلان بنانے کے حوالے سے کام کر رہی ہے۔

ڈیجیٹل دنیا، ریئل اسٹیٹ اور ہم

پاکستان ترقی کی دوڑ میں اب بھی بہت سارے ممالک سے پیچھے ہے۔ جب دنیا اسپیس کو تسخیر کر رہی تھی، ہم پٹواری نظام کے تحت زمینوں کے انتقال کر رہے تھے۔ عالمی سطح پر ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں جدید بنیادوں پر ٹیکنالوجی آئی اور لینڈ ریکارڈز ڈیجیٹل ہونا شروع ہو گئے۔ ڈیٹا فائلوں سے نکل کر کمپیوٹر میں چلا گیا۔

آج پورے پاکستان کے چاروں صوبوں کی پراپرٹی کی معلومات کے حوالے سے سرکاری ویب سائٹس موجود ہیں جہاں سے زمین کی ملکیت سے لے کر متعدد پراپرٹیز کی تصدیق شدہ دستاویزات تک ہر طرح کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ معلومات کے ڈیجیٹل ہونے سے جہاں کرپشن کا خاتمہ ہوتا ہے وہیں معلومات تک عام آدمی کو رسائی ملتی ہے۔ اب صرف چند کلک پر لینڈ ریکارڈز کے لئے بنائی گئی خصوصی ویب سائٹ پر آپ کو تمام معلومات میسر ہیں۔ اس ڈیٹا کی مدد سے صارفین مکمل اور مستند معلومات حاصل کر کے پراپرٹی کی خرید و فروخت اور سرمایہ کاری کے حوالے سے ایک علمی فیصلہ کر سکتے ہیں۔

قوانین پر عملدرآمد کا فقدان

اگر ہم شہری احاطوں کا فضائی جائزہ لیں تو یوں گمان ہوتا ہے کہ یہاں ماسٹر پلان نہیں بلکہ "جس کی لاٹھی اس کی بھینس” کا محاورہ صادق آتا ہے۔ پراپرٹی کے حوالے سے قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کا میدان ہمیشہ ویران رہا۔ بڑے بڑے رئیل اسٹیٹ پراجیکٹس اپنے این او سیز پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی مصدقہ زمین کے علاوہ مزید زمین پر بھی قبضہ لیتے ہیں اور اس پر تعمیرات کر دیتے ہیں۔ یوں سالوں گزر جاتے ہیں اور یہ غیر قانونی کاروبار کا گورکھ دھندا چلتا رہتا ہے۔ متعلقہ انتظامیہ اکثر خاموشی سادھ لیتی ہے اور اس سے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس عمل کو "غیر قانونی تجاوزات” کہتے ہیں.

ان ہاؤسنگ سوسائٹیز کا کام کرنے کا طریقہ نہایت انوکھا اور نرالا ہے۔ عوام میں یہ بات مشہور کر دی جاتی ہے کہ این او سی کے لئے درخواست دے دی گئی ہے اور جلد این او سی مل جائے گا۔ عوام کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ این او سی ملنے کے بعد زمین مہنگی ہو جائے گی اسی لئے یہی سرمایہ کاری کرنے کا بہترین موقع ہے۔ یوں خریدار لالچ میں آکر سستی زمین کی ایک سے زائد فائلیں خرید لیتا ہے۔ یہ سارا گورکھ دھندا عمومی طور پر غیر مصدقہ ڈیلرز کے ذریعے کروایا جاتا ہے۔ یوں خریدار کا سرمایہ ہوا میں معلق ہو جاتا ہے اور کوئی مستقبل کی صورت نظر نہیں آتی۔ ایسی سوسائٹیز کے بل بورڈ بھی ہمیں جگہ جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن انتظامیہ حرکت میں نہیں آتی۔ حتیٰ کے ٹی وی اور سوشل میڈیا پر بھی ان غیر قانونی منصوبوں کے اشتہار چل رہے ہوتے ہیں۔ حال ہی میں دیکھا گیا ہے کہ ایسے اشتہارات پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

رئیل اسٹیٹ میں ہونے والی بے ضابطگیاں

پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے کے لئے کسی قسم کے سرکاری لائسنس کا رواج نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ہر شہر کی ہر گلی میں چھوٹے چھوٹے پراپرٹی کے دفتر نظر آتے ہیں۔ غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز اکثر ایسے ہی غیر مصدقہ ڈیلرز کا سہارا لیتی ہیں۔ یہ غیر مصدقہ ڈیلرز اور ہاؤسنگ سوسائٹیز آپس میں ایک منافع کی شرح طے کر لیتے ہیں۔ یوں وہ ٖغیر مصدقہ ڈیلرز سرمایہ کاروں اور عام آدمی کو زیادہ سے زیادہ سے پلاٹس دلوانے کی بھرپور کوشش کر کرتے ہیں۔ پاکستان میں پراپرٹی کا دفتر کھولنے کے لئے آپ کو کسی خاص تعلیم یا ڈگری کی ضرورت بھی نہیں۔

پاکستان میں قبضہ مافیا کی بڑھتی ہوئی غیر قانونی وارداتوں نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ اس امر کو مدںظر رکھتے ہوئے موجودہ حکومت نے عوامی شکایات کے لئے بنائی گئی ایپ پاکستان سیٹیزن پورٹل میں لینڈ گریبنگ یعنی زبردستی زمین ہتھیا لینے کی کیٹیگری خاص طور پر شامل کی گئی۔ ملک کے تمام شہروں کی ضلعی انتظامیہ کو اس حوالے سے آنے والے شکایات کو مکمل توجہ اور تندہی کے ساتھ حل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس حوالے سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی زمینوں پر قبضے کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
یہ وہ مسائل ہیں کہ جن کی بنیاد پر رئیل اسٹیٹ انڈسٹری اس طرح سے پاکستان میں نہیں پنپ پا رہی جیسے اسے پنپنا چاہئے۔

مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔

invest with imarat Islamabad’s emerging city
centre
Learn More
Scroll to Top
Scroll to Top