پراپرٹی مالک اور کرایہ دار کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ثالثی کونسل کی منظوری

اسلام آباد کی 80 فیصد سے زائد آبادی کرایہ کے مکانوں یا فلیٹس میں رہتی ہے جس کی وجہ سے پیچیدہ قسم کے سماجی و قانونی مسائل جنم لیتے ہیں۔

invest with imarat

Islamabad’s emerging city centre

Learn More

پہلے پہل عام طور پر جائیداد کی ملکیت کے کاغذات بھی نہیں ہوا کرتے تھے۔ کرایہ داری کے معاہدات بھی زبانی ہوا کرتے تھے کرایہ داری قوانین بھی مروج نہیں تھے۔ محض زبانی کلامی بات کا پاس رکھا جاتا تھا۔ اس وقت کے تنازعات میں عموماً لاعلمی، جاہلیت، انا یا لالچ کا عنصر کارفرما ہوتا تھا۔

لاعلمی، خوف اور لالچ کی وجہ سے مالکان یہ سمجھتے ہیں کہ طویل عرصے تک کرایہ دار رہنے والا شخص جائیداد کا مالک بن جاتا ہے یا اس کا دعویٰ کردیتا ہے۔ اس لیے مالکان کرایہ دار کو زیادہ عرصے برداشت نہیں کرتے اور زیادہ کرایہ اور ایڈوانس کے لالچ میں کرایہ دار کو بلا کسی وجہ بے دخل کرنے کے لیے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔

دوسری جانب بعض کرایہ دار بھی مالک کی جائز ضرورت کی بنا پر بھی اس کی جائیداد خالی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ کرایہ بڑھانے سے انکار کردیتے ہیں اور کرایہ اور یوٹیلیٹی بلز ادا کرنے میں تاخیر کرتے یا انکار کردیتے ہیں۔ اسی طرح کرائے کی جگہ کو اس کی اصل حالت میں رکھنے کے بجائے خراب کرتے ہیں یا توڑپھوڑ کرکے ردوبدل کردیتے ہیں۔

جائیداد کے مالکان اور کرایہ داروں کے درمیان تنازعات کو روکنے، ان کو حل کرنے اور ان کے مفادات و حقوق کو تحفظ دینے اور مالکان اور کرایہ داروں کے باہمی رشتے کو باضابطہ اور قانونی بنانے کے لیے تمام صوبوں اور کنٹونمنٹ نے کرایہ داری کے اپنے اپنے قوانین وضع کیے گئے۔

اسلام آباد میں قانون کرایہ داری کا نفاذ وقت کی اہم ضرورت تھی۔ قانون کرایہ داری کی عدم موجودگی کی وجہ سے کرایہ دار طبقہ سخت پریشان تھا اور مہنگائی کے اس دور میں ان کو کرایوں میں بے جا اضافے اور بے دخلیوں کا سامنا رہا۔

اسلام آباد کے لیے نئے قانون کرایہ داری کے بنیادی خدوخال

ترمیمی بل کے مطابق کرایہ داری کے تمام تنازعات کیلئے ایک مصالحتی کمیٹی بنے گی اور کسی بھی مقدمہ بازی سے قبل مصالحتی کمیٹی فیصلہ کرے گی۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے لیے نیا منصفانہ قانون کرایہ داری پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھاری اکثریت سے منظور کر لیا گیا ہے۔

قانون کرایہ داری اسلام آباد رینٹ رسٹریکشنز (ترمیمی) بل 2020 کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد اسلام آباد میں قانون کرایہ داری مالک جائیداد اور کرایہ دار کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے مدد فراہم کرے گا۔

نئے قانون کے مطابق جائیداد کو کرایہ پر لینے کی ہر ڈیل کا قانونی مسودہ رینٹ کنٹرولر کے پاس رجسٹر کیا جائے گا۔ جبکہ پیشگی ادائیگی صرف کراس چیک کے ذریعے ممکن ہو سکے گی۔

نئے ترمیمی قانون کے مطابق کرایہ میں سالانہ 10 فیصد اضافہ خود بخود ہو جائے گا۔ کسی بھی قسم کے تنازعہ کی صورت میں ثالثی کونسل تصفدیہ کرے گی جبکہ کونسل میں مالک اور کرایہ دار کے نمائندے کو ممبر بنایا جائے گا اور ثالثٰ کونسل کا فیصلہ حتمی تصور کیا جائے گا۔

وزیراعظم کے معاونِ خصوصی علی نواز اعوان نے کہا ہے کہ منصفانہ قانون کرایہ داری اسلام آباد کے تاجروں کا دیرینہ مطالبہ تھا جسے پورا کر دیا گیا ہے۔

کرایہ دار کے کوائف پولیس اسٹیشن میں جمع کروانا لازمی قرار

کرایہ داری قانون کے تحت وفاقی دارالحکومت میں کوئی بھی شخص اپنی پراپرٹی رہائشی یا غیر رہائشی کرائے دار کو دینے سے قبل پولیس کے پاس کرایہ دار کی تمام معلومات کا اندراج کرانے کا پابند ہو گا۔ کرایہ دار کے کوائف تھانے جمع نہ کروا کر تعزیراتِ پاکستان کے سیکشن 188 کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا  جائے گا۔

سنہ 2017 ء میں شہریوں کی سہولت کے لیے اسلام آباد پولیس کی ویب سائیٹ پر رجسٹریشن کا پورٹل بھی کھولا گیا تاکہ مالک مکان یا کرایہ دار گھر بیٹھے کوائف کا اندراج کر سکیں۔

 کرایہ دار اور مالک مکان کے ذمہ کیا امور ہیں؟

کرایہ داری کا معاہدہ جس میں کرایہ اور مدت باہمی رضامندی سے طے کرلی جاتی ہے، معاہدہ ہوجانے کے بعد  مالک مکان  پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جس سامان کا معاہدہ میں ذکر نہ ہو، گھر کو خالی کرکے مقررہ وقت پر مکان کرایہ دار کے حوالے کرے۔

اسی طرح مالک مکان ان تعمیرات کے اخراجات برداشت کرے جن کا تعلق براہِ راست مکان سے ہو اور بلاشبہ اس کا فائدہ  کرایہ دار کے علاوہ مالکِ مکان کو بھی ہوتا ہے۔ مثلاً عمومی تعمیرات وغیرہ۔

دوسری جانب کرایہ دار  پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ  گھر کو عرف اور عادت کے مطابق استعمال کرے۔ گھر کے استعمال میں گھر کو کوئی ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو تو مالک مکان سے  اس کی پیشگی اجازت طلب کرے۔

کرایہ د ار کو چاہئیے کہ رہائش کی خاطر ہونے والے خرچے جن کا فائدہ  براہ راست کرایہ دار سے متعلق ہو ان کے اخراجات  خود برداشت کرے۔ مثلاً   باورچی خانے میں چولہے وغیرہ بنانا۔

معاہدے کے مطابق وقت مکمل ہونے پر اگر مالکِ مکان گھر خالی کرنے کا مطالبہ کرے تو  کرایہ دار کو چاہئیے کہ وقت پر گھر خالی کرکے مالک کے حوالے کرے۔

موجودہ زمانے میں گیس بجلی وغیرہ کے بل کے حوالے سے اگر باہم معاہدہ طے ہوجائے یا کسی جگہ کا عرف متعین ہو تو اس پر عمل کیا جائے، بصورتِ دیگر کرایہ دار جتنی بجلی اور گیس استعمال کرے گا اس کا بل اسے ادا کرنا ہوگا۔

تاجر برادری  اور پراپرٹی مالکان نے حکومت کے موجودہ اقدام کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ نئے منصفانہ قانون کے تحت  کرایہ دار اور مالکان کے حقوق کو تحفظ کی یقینی فراہمی میں مدد ملے گی۔

مزید خبروں اور اپڈیٹس کے لیے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔

invest with imarat Islamabad’s emerging city
centre
Learn More
Scroll to Top
Scroll to Top