پاکستان کے لیے نیشنل اربن پالیسی کیوں ضروری ہے؟

کیا آپ کو یہ معلوم ہے کہ سات دہائیوں پر محیط ہماری قومی تاریخ میں پاکستان کی کوئی قومی شہری پالیسی نہیں ہے؟

invest with imarat

Islamabad’s emerging city centre

Learn More

اگر ہم نے خلوص کے ساتھ اِس پالیسی کو وضع کیا ہوتا اور اس پر عمل درآمد کرتے تو شاید ہم آج اِس کثیر جہتی شہری بحران کا سامنا نہ کرتے۔ یہ سچ ہے کہ ہمارے ابتدائی برسوں میں آبادی کی اکثریت دیہی علاقوں میں رہتی تھی مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس کے باوجود ہمارے منصوبہ ساز اور پالیسی ساز شاید یہ سمجھنے میں چُست نہ تھے کہ ہمیں آخر کار شہر کی آبادکاری کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔

 

نیشنل اربن پالیسی نہ ہونے کے نقصانات

جیسا کہ توقع کی جارہی تھی، پاکستان کے انڈسٹریز اور سروسز سیکٹر میں تیزی آئی ہے۔ شہر اب جی ڈی پی میں 78 فیصد کا حصہ ڈالتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر نقل مکانی نے شہریاری کے عروج کی رفتار کو تیز کردیا ہے۔

 

 

سال 2030 تک پاکستان کی نصف آبادی شہری علاقوں میں آباد ہوگی۔ لیکن ہمارے شہروں کی حالت دیکھیں کہ بیشتر نہ تو زندہ ہیں اور نہ ہی عالمی معیار کے مطابق۔ شہری پالیسی کی عدم دستیابی کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ تو شہری منصوبہ بندی کی گئی اور نہ ہی کسی طور ان کو منظم کیا گیا۔

نہ تو ناکافی اور غیر معیاری انفرااسٹرکچر کی کوئی خیر خبر لی گئی اور نہ ہی رہائش کی شدید قلت، ماحولیاتی آلودگی اور غربت اور بے روزگاری جیسے متعدد چیلنجوں کے لیے ہمارے پاس کوئی پلان رہا۔

 

کراچی کی زندہ مثال

مثال کے طور پر کراچی کو ہی لیجئے۔ سن 1947 میں یہ ایک باضابطہ شہر تھا جس میں ایک منتخب کونسل کے ذریعہ تمام بنیادی اُمور اور سروسز کا انتظام کیا جاتا تھا۔ لیکن آج اس کی کیا حالت ہے؟ اس کی گلیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، اِس کے نالے بہہ رہے ہیں۔ یہاں ناقص منصوبہ بندی کا راج ہے، وسیع اور بے ترتیب بستیاں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ یہاں نہ کوئی عوامی ٹرانسپورٹ اور سیوریج کا انتظام ہے اور نہ ہی اِس شھر کو پینے کے صاف پانی کی دستیابی ہے۔

 

 

یہ سچ ہے کہ شہری مسائل کو حل کرنے کے لئے مناسب سرمایہ کاری نہیں کی گئی لہذا اس کا نتیجہ عدم اطمینان، معاشرتی تنازعہ اور تشدد بنا۔ ایک ہی وقت میں بڑے، درمیانے اور چھوٹے شہر سرمایہ کاری اور معاشرتی انفراسٹرکچر کی عدم دستیابی کا شکار ہوگئے اور نتیجہ منفی نکلا۔

 

اگر مربوط اور متحرک پالیسی ہوتی تو ۔۔

اگر ہمارے پاس مربوط اور متحرک پالیسی ہوتی اور اس پر عمل درآمد کرنے کے لئے مقامی انتظامیہ کی تشکیل ہوتی تو زمینوں کی تقسیم، مخلوط زمین کے استعمال اور شہری پھیلاؤ، انفراسٹرکچر، ماس ٹرانزٹ، سستی رہائش، روزگار اور افرادی قوت کی مہارتوں کے بہتر استعمال پر آج ہم ایک بہتر پوزیشن میں ہوتے اور یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ آج ہم بہت بہتر صورتِ حال میں ہوتے۔

 

 

یہ نیشنل اربن پالیسی کے نہ ہونے کا ہی ثبوت ہے کہ بڑے شہروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ اہم مقامات پر لوگوں کا بےتحاشا رش ہے جبکہ پسماندہ گروپ دور دراز علاقوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

شہری پالیسی تجویز کر سکتی ہے کہ دستیاب سرکاری اراضی کو کیسے بہتر انداز میں استعمال کیا جائے اور کم آمدنی والے گروہوں کے لئے کون سی جگہ مختص ہو۔ اربن پالیسی ہو تو ہاؤسنگ فنانس تک رسائی، منصوبہ بندی، زوننگ کے ضوابط، ترقیاتی معیار ، اراضی کی رجسٹریشن/منتقلی کے طریقہ کار، پراپرٹی ٹیکس، ٹیکس کے قوانین سمیت معتدد مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اس پالیسی سے شہری انفراسٹرکچر، اداروں کی اصلاح اور استحکام کی فوری ضرورت کو بھی حل کیا جاسکتا ہے۔

 

قدیم پالیسیاں اور نئے خیالات

پاکستان میں معاشرتی شعبے میں تحقیق کا کوئی کلچر موجود نہیں ہے۔ ایسے ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ عہدے دار قدیم پالیسیوں کے حق میں نئے خیالات سے نفرت کرتے ہیں۔ اگر کسی پالیسی پیپر کی ضرورت ہو تو متعدد اسٹیک ہولڈرز کی میٹنگز اور بہت زیادہ تشہیر کے بعد مکمل رپورٹیں تیار کرنے کے لئے کنسلٹنٹس یا ٹاسک فورسز کو مقرر کیا جاتا ہے۔ لیکن بعد ازاں اس کی کوئی پیروی نہیں کی جاتی ہے اور ایک سائیکل کے بعد نتیجہ صفر نکلتا ہے۔

 

 

یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ شہری ترقی ایک صوبائی مضمون ہے اور جبکہ منصوبہ بندی بھی مقامی سطح پر کی جانی چاہئے۔ لیکن جس تیزی سے شہر پھیلاؤ کا شکار ہیں، یہاں پیدا ہونے والے ہزاروں مسائل نے وفاقی حکومت کو ایک وسیع فریم ورک تیار کرنے کا لائسنس فراہم کردیا ہے جسے صوبائی حکومتیں اپنے اپنے دائرہ اختیار میں پالیسیاں تیار کرنے کے لئے استعمال کرسکتی ہیں۔

 

مزید خبروں اور اپڈیٹس کے لئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔

invest with imarat Islamabad’s emerging city
centre
Learn More
Scroll to Top
Scroll to Top