مینارِ پاکستان، رہتی دنیا تک لاہور کی پہچان

تاریخ کے جھروکوں سے آتی ہوائیں آرزوئے وطن کی اُس کہانی کی یاد دلاتی ہیں جس کے ایک ایک لفظ میں ایثار اور قربانیوں سے بھرپور کئی داستانیں رقم ہیں۔ جس کے ہر صفحے پر خواب اور مضبوط ارادے سے لے کر ایک جوش، ایک ولولہ اور ایک یقین درج ہے۔ اِن ہی داستانوں کے نشان آج ہمارے درمیان یادگار کی صورت میں موجود ہیں۔

invest with imarat

Islamabad’s emerging city centre

Learn More

مینارِ پاکستان وہ قومی یادگار ہے جسے 1960ء اور 1968ء کے درمیان اس کے موجودہ مقام پر آذادی کی علامت کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ 23 مارچ 1940ء کو قائدِ اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں تاریخی قراردادِ پاکستان منظور ہوئی۔ جسے یادگارِ پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔

یہ برٹش انڈین مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ آزاد وطن کا پہلا سرکاری مطالبہ تھا۔ اِس قرارداد کی منظوری کے سات برس بعد پاکستان معرضِ وجود میں آیا اور اِس تاریخی مقام کو ہمیشہ زندہ و جاوید رکھنے کے لیے قریباً 12 برس بعد یہاں ایک یادگار تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

 

مینارِ پاکستان کی تعمیر کا فیصلہ کیسے کیا گیا؟

لاہور کے منتظمین نے اِس یادگار عمارت کے لیے نمایاں شخصیات پر مبنی ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے زیرِ غور مختلف تجاویز تھیں کہ عمارت کا ڈیزائن اور نقشہ کیسا ہونا چاہیئے، جس میں ثقافت کی جھلک بھی ہو اور آزادی کا نشان بھی۔ مسجد بنانے کے لیے بہت سی تجاویز ملیں لیکن آخرکار مینار کی صورت میں ایک یادگار تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کا سنگِ بنیاد 1960ء میں رکھا گیا۔

ڈیزائن یا خاکہ کس نے تیار کیا؟

سن 1960ء میں مینارِ پاکستان کا خاکہ تیار کرنے اور اس کی تعمیر کی ذمہ داری لینے کا وقت آیا تو اس کے لیے ترک مسلمان نصرالدین مورت خان کے نام کا انتخاب کیا گیا۔ وہ ان دنوں مغربی پاکستان کی حکومت کے مشیر برائے فنِ تعمیر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ تعمیر کا کام میاں عبدالخالق اینڈ کمپنی نے 23 مارچ 1960ء میں شروع کیا اور 21 اکتوبر 1968ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر کی کُل لاگت 75 لاکھ روپے تھی۔

مینارِ پاکستان کی بلندی اور منزلیں

مینار کی بلندی 196 فٹ ہے۔ یہ 180 فٹ تک لوہے اور کنکریٹ سے بنا ہے اور اس سے اوپر کا حصہ اسٹیل کا ہے۔ اس کی پانچ گیلریاں اور بیس منزلیں ہیں۔ پہلی گیلری تیس فٹ اونچائی پر ہے جبکہ مینار کی سیڑھیوں کی تعداد 323 ہے۔
مینار کے پہلے برآمدوں والے گول ہال کی شکل کے حصے میں پھول کی پتیاں بنی ہوئی ہیں۔ سنگِ مرمر کی سلوں پر اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام اور قرآن مجید کی مختلف آیات درج ہیں۔ قرارداد کا مکمل متن اردو، بنگالی اور انگریزی زبانوں میں رقم ہے۔
تختیوں پر علامہ اقبالؒ کے اشعار اور قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کے ارشادات درج ہیں۔ ایک تختی پر قومی ترانہ درج ہے۔ صدر دروازے پر مینارِ پاکستان اور اللہ اکبر کی تختیاں آویزاں ہیں۔

منٹو پارک سے اقبال پارک تک

مینارِ پاکستان منٹو پارک میں تعمیر کیا گیا تھا۔ بعد ازاں اسے تصورِ پاکستان کے خالق حضرت علامہ اقبالؒ کی نسبت اقبال پارک کا نام دیا گیا۔ اس کے علاوہ پارک کے قریب چوراہے کو آزادی چوک اور سڑک کو شاہراہ پاکستان کے ناموں سے پکارا جانے لگا۔

دو قومی نظریے کا مینارِ پاکستان سے تعلق

سن 1867ء میں بنارس کے ہندوؤں نے لسانی تحریک شروع کر دی جس کا مقصد اردو کی جگہ ہندی کو سرکاری اور عدالتی زبان کے طور پر رائج کرنا تھا۔ علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الٰہ آباد میں برصغیر پاک و ہند کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک خود مختار مسلم ریاست کا تصور پیش کیا جس کی بناء پر انہیں مفکر پاکستان کے خطاب سے نوازا گیا۔ علامہ اقبالؒ ایک عہد ساز شاعر تھے ان کی شاعری کا مقصد محکوم مسلمانوں کی قومی غیرت کو جگانا تھا۔

انہوں نے اپنی ولولہ انگیز شاعری کے ذریعے نہ صرف مسلمانوں کی قومی غیرت کو جگایا بلکہ عہدِ ماضی کی شاندار اسلامی روایات کی روشنی میں انہیں یہ نوید سنائی کہ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل کر کے اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کر سکتے ہیں۔
یوں علامہ اقبال نے مسلمانوں میں دو قومی نظریے کا شعور اجاگر کیا جس کی بنیاد الگ مذہب، روایات اور ثقافت تھا۔
مینارِ پاکستان کے مقام پر اسی دو قومی نظریے کے پیشِ نظر بابائے قوم قائدِاعظم محمد علی جناح کے زیر صدارت قراردادِ پاکستان منظور کی گئی۔

مینارِ پاکستان سرکاری تقریبات کا مسکن کیوں؟

پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر لاہور کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں کے رہنے والے زندہ دلانِ لاہور کہلواتے ہیں۔ مہمان نوازی میں پیش پیش ہوتے ہیں اور تقریبات پر دل کھول کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ پتنگ بازی ہو، چودہ اگست ہو یا پھر کوئی مذہبی یا سیاسی اجتماع، لاہور کے باسی اقبال پارک مینارِ پاکستان کا رُخ کرنا پسند کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ حکومتِ وقت کی طرف سے کوئی تقریب ہو یا پھر مخالفین کی جانب سے کوئی جلسہ یا جلوس، سب ہی مینارِ پاکستان کا انتخاب کرنا پسند کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ عوام کو اکٹھا کیا جا سکے اور اپنی تقریب کو ممکنہ حد تک کامیاب بنایا جا سکے۔

پاکستان کی یہ تاریخی یادگار رہتی دنیا تک لاہور کی پہچان رہے گی۔

مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔

invest with imarat Islamabad’s emerging city
centre
Learn More
Scroll to Top
Scroll to Top