موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق مثبت کرادر  پر پاکستان کی عالمی سطح پر پذیرائی

بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (آئی پی سی سی) کی رپورٹ کے مطابق کرہ ارض کا درجہ حرارت 1850ء سے سال 1900ء تک اتنا زیادہ نہیں تھا جتنا سال 2011 سے 2020 کے درمیان رہا۔ دونوں ادوار کے درمیان اوسطاً 1.09 سینٹی گریڈ کا فرق ہے۔ گذشتہ پانچ برس 1850ء کے بعد تاریخ کے گرم ترین سال تھے۔ حالیہ برسوں میں سطح سمندر میں اضافہ 1901ء سے 1971ء کے دوران ریکارڈ ہونے والے اضافے سے بھی زیادہ ہے۔

invest with imarat

Islamabad’s emerging city centre

Learn More

اقوام متحدہ سمیت متعدد عالمی اداروں کی جانب سے انسانیت کے لئے موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات کے حوالے سے بارہا متنبہ کیا جاچکا ہے جس پر اقوام عالم کا ردعمل ملا جلا اور ضروری اقدامات کی نوعیت مختلف رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں گلیشیئر اور قطب شمالی میں موجود برف پگھلنے کی سب سے بڑی وجہ (90فیصد) انسانی عوامل ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ شدید گرمی پڑنا اب اور عام ہوتا جائے گا جبکہ شدید سردی کی لہر میں بھی بتدریج کمی آتی جائے گی۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اب دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کو کسی حد تک ایک سنجیدہ چیلنج کے طور پر دیکھنے لگی ہے۔

اس صدی کے اختتام تک سمندر کی سطح میں 2میٹر تک اضافے کا خدشہ

موسمیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) کی 42 صفحات پر مشتمل جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’انسان دنیا کے ماحول پر بری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں، ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسز کے اخراج کا موجودہ رجحان جاری رہا تو ایک دہائی میں اوسط درجہ حرارت میں اضافے کی حد کے تمام ریکارڈ ٹوٹ سکتے ہیں جبکہ اس صدی کے اختتام تک سمندر کی سطح میں دو میٹر تک اضافے کے خدشے کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔

گرین ہائوس گیسوں کے اخراج پر بڑی حد تک قابو پانے سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث رونما ہونے والی آفات نے دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اب اس کے پاس فطرت کے ساتھ تصادم کے راستے کو ترک کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے اور ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے قدرتی ماحول کے ساتھ دوستانہ طرز عمل اختیار کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔

اقوام متحدہ نے عالمی سطح پر تیزی سے رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے خبردار کرتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں جاری کردہ پہلے بڑے سائنسی جائزہ کو انسانیت کیلئے خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گتریس کا اس حوالے سے کہنا ہے “اگر ہم اب ہی سر جوڑ کر بیٹھیں تو ہی بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تباہی سے نمٹ سکتے ہیں لیکن اس معاملے میں تاخیر کی گنجائش ہے نہ غلطی کی۔”

گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر پھر بھی  فہرست میں دسویں نمبر پر

پاکستان کا موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ اس کا شمار دنیا میں ماحولیاتی مسائل سے سب سے زیادہ متاثرہ 10 ممالک میں ہوتا ہے۔ پاکستان نے آلودگی، گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی انحطاط کے باعث پیدا ہونے والے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے بڑے اور انقلابی اقدامات کیے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کے عزم، جاری کوششوں اور کامیابیوں کا پوری دنیا نے اعتراف کیا ہے۔

قدرتی ماحول کے تحفظ اور بحالی کی کوششوں اور ان کی کامیابیوں کے حوالے سے پاکستان کے قائدانہ کردار کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔ اس پس منظر کے ساتھ پاکستان کو اس سال عالمی یوم ماحولیات 2021 کے میزبان ملک کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کے پروگرام برائے ماحولیات (یو این ای پی) کی شراکت سے 5 جون 2021 کو عالمی یوم ماحولیات کی مناسبت سے تقریبات کی میزبانی کی۔

رواں سال پاکستان کی میزبانی میں عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر اقوام متحدہ کا دس سالہ منصوبہ برائے بحالی ایکو سسٹم 2021 تا 2030 کا بھی باضابطہ افتتاح کیا گیا۔ اس پیش رفت سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ ماحولیات کے تحفظ و بحالی کے اقدامات کے نتیجے میں دنیا بھر میں پاکستان کا مثبت تشخص ابھرا ہے۔ ماحولیات سے متعلق امور کی مانیٹرنگ کرنے والے ادارے جرمن واچ کے مطابق پاکستان گزشتہ 20 سال کے دوران موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثرہ 10 ممالک میں شامل ہے۔

گلوبل وارمنگ کے باعث گلیشیئرز کے پگھلنے میں تیزی

پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کے باعث 2010 کے بعد مسلسل سیلابوں، تھرپارکر اور چولستان جیسے علاقوں میں شدید خشک سالی، ملک کے جنوبی حصے میں شدید گرمی کی لہر، آندھی، سمندری طوفان، لینڈ سلائیڈنگ اور ملک کے شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے سے بننے والی جھیلوں کے ٹوٹنے کی وجہ سے سیلاب جیسی کیفیات کے خطرات کا سامنا ہے۔

پاکستان کو درپیش موسمیاتی تبدیلی کے چند بڑے خطرات میں شدید موسمی حالات بشمول بے ترتیب بارشوں کی وجہ سے سیلاب اور خشک سالی کی صورتحال، گلوبل وارمنگ اور خطے میں آلودگی کے باعث کاربن کی مقدار میں مسلسل اضافے کی وجہ سے ہندوکش۔ قراقرم۔ ہمالیائی گلیشیئرز کے پگھلنے میں تیزی، دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں کمی، درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے گرمی بڑھنے اور پانی کی کمی کی صورتحال اور اس کے نتیجے میں زرعی پیداوار پر منفی اثرات، موسمی حالات میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کے باعث جنگلات کے کم ہوتے رقبے پر دباؤ، ساحلی علاقے میں زراعت، مینگروز اور مچھلی کی افزائش نسل کے لئے ماحول ناسازگار ہونے کے علاوہ انسانی صحت کے لئے بھی خطرات بڑھے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق ماحولیاتی موافقت کے منصوبوں پر کام کرنے والے ترقی پذیر ممالک کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس بات کے محض محدود شواہد موجود ہیں کہ ان منصوبوں نے کسی خطرے کو کم کیا ہو۔ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے کم ترقی یافتہ ممالک (ایل ڈی سی) گروپ کی چیئرپرسن سونم وانگ ڈی کا کہنا ہے ’’ہمیں اپنے منصوبوں کو موسم کے بدترین بحران کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے، ہمارے موجودہ منصوبے لوگوں کی حفاظت کے لیے کافی نہیں ہیں۔‘‘

مزید خبروں اور اپڈیٹس کے لیے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔

invest with imarat Islamabad’s emerging city
centre
Learn More
Scroll to Top
Scroll to Top