لاہور کے تفریحی مقامات، ثقافت اور جدت کا امتزاج

زمانے کے ساتھ بھاگنے کی دوڑ اور پیچھے رہ جانے کا خوف ہمیں نہ صرف ہمارے خاندان اور بچوں سے دور کرتا ہے بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ انسان اپنے آرام اور صحت سے بھی دور ہونے لگتا ہے۔

invest with imarat

Islamabad’s emerging city centre

Learn More

بہت زیادہ مصروفیات انسان کو ذہنی خلفشار میں مبتلا کر دیتی ہیں جس کا اثر ارد گرد کے ماحول اور قریبی رشتوں پر پڑتا ہے۔

کام جسے ہم نوکری، کاروبار اور گھر داری کہتے ہیں، زندگی کے سکون اور روانی کے لیے بہت ضروری امر ہے۔ لیکن اِسی کے ساتھ ضروری ہے کچھ ایسی سرگرمیاں کی جائیں کہ جن کی بدولت ہم اپنی روز مرہ زندگی میں خوشیاں لا سکیں۔

ہفتہ یا مہینے بھر کی مصروفیات کے بعد خاندان کے افراد کے ساتھ شہر کے کسی بھی خوبصورت مقام کی سیر آپ میں مثبت تبدیلیاں لا سکتی ہیں۔ اگر بات ہو شہر لاہور کی تو زندہ دلانِ لاہور کا شمار پاکستان کے اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو سیر و تفریح کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

 

لاہور کے پرانے باغات

لاہور بلاشبہ پنجاب کا ایک ہرا بھرا شہر ہے جس میں بے شمار بڑے اور چھوٹے پارک اور باغات موجود ہیں۔

اگر بات کی جائے باغات کی تو جناح باغ کو وہ اہمیت حاصل ہے جو لاہور کے کسی باغ کو آج تک حاصل نہیں ہوئی۔ یہ ایک تاریخی باغ ہے جو اِس سے پہلے لارنس گارڈن یا لارنس باغ کہلایا جاتا تھا۔ اِس باغ میں ایک مسجد اور ایک لائبریری قائم کی گئی تھی جس کا نام قائدِاعظم لائبریری رکھا گیا۔ یہ شہر کے وسط میں واقع ہے اور اِس سے متصل ایک چڑیا گھر بھی ہے۔ اس باغ میں بیشتر چھوٹے چھوٹے باغ موجود ہیں جو تاریخی اور مشہور شخصیات کے ناموں سے منسوب ہیں۔ یاد رہے کہ 70 اور 80 کی دہائی میں بےشمار مشہور پاکستانی فلموں کے رومانوی گانے باغِ جناح میں ہی فلمائے جاتے تھے۔

قدرتی نعمتوں سے محبت رکھنے والے لاہور شہر کے مقیم بوڑھے اور جوان آج بھی صبح کی سیر، ورزش یا دن کے کسی بھی حصے میں چہل قدمی کے لیے اِس باغ کو ترجیح دیتے ہیں جہاں ہرے بھرے درختوں پر کوئل اور دوسرے پرندوں کی چہچہاہٹ اور پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو قدم قدم پر آنے والوں کا پیچھا کرتی ہے۔

 

ریس کورس یا جیلانی پارک

لاہور ریس کلب کی جگہ پر ایک پارک تعمیر کیا گیا جس کا نام ریس کورس پارک رکھا گیا، بعد ازاں اس نام کو بدل کر جیلانی پارک رکھ دیا گیا۔ اب یہ پارک لاہور میں ریس کورس پارک اور جیلانی پارک دونوں ناموں سے مشہور ہے۔ اِس پارک میں ہر سال فن فیئر یا میلہ جشنِ بہاراں کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس میں ثقافتی فن پاروں سے لے کر روایتی لباس اور مزے مزے کے پکوانوں کے اسٹال موجود ہوتے ہیں۔ یہ میلہ ہر عمر کے شہریوں کی توجہ مبزول کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔

 

اندرون لاہور کی رونقیں آج بھی قائم دائم

لاہور شہر نے بہت بہاریں دیکھیں اور آج شہر کے بیشتر حصوں کی پرانی عمارات کی جگہ بلند و بالا اور بڑے بڑے شاپنگ مالز نے لے لی۔ اندرون شہر کے باسیوں نے مگر پرانے لاہور کو ختم نہ ہونے دیا۔

اندرون شہر کے دہلی دروازے میں واقع شاہی گزر گاہ سے متصل ایک گلی ہے جسے سورجن سنگھ گلی کہا جاتا ہے۔ سورجن سنگھ لاہور کے ایک حکیم تھے جو تقسیم برصغیر سے قبل اس گلی میں واقع ایک مرلہ کے مکان میں مقیم تھے۔ ان کے بعد اس گھر میں حافظ ضیاء الدین قریشی رہتے رہے۔ سورجن سنگھ گلی کو لاہور کی روایتی اور قدیمی اشیا کے علاوہ جدید روشنیوں اور رنگوں سے ایسے آراستہ کیا گیا ہے کہ دیکھنے والے اِسے اٹلی کے کسی علاقے سے تشبیہ دیتے ہیں۔

پرانے لاہور کی یاد تازہ کرنے اور ثقافت کے رنگ دیکھنے کے لیے روزانہ کئی سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں۔

 

لاہور کے ثقافتی ورثے اور روایتی کھانے

شہر کے ثقافتی مقامات میں مینارِ پاکستان، بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ، مسجد وزیر خان اور بارہ دری شامل ہیں۔

لاہور کی قدیم روایات و ثقافت کا ذکر ہو اور ہم کھانے بھول جائیں تو یہ لاہور سے محبت کرنے والوں کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔ لاہوری کھانے جنھیں مقامی زبان میں کھابے کہا جاتا ہے پوری دنیا میں مشہور ہیں۔

مشہور ڈشز میں ناشتے سے لے کر وہ تمام کھانے شامل ہیں جن کو لوگ لاہور سے دور جا کر بھی نہیں بھولتے، جن میں پھجے کے پائے، حلوہ پوری، لسی، نہاری، چنے، بریانی اور تمام روایتی مٹھائیاں شامل ہیں۔ یہ ثقافتی ورثے اور روایتی کھانے بہت بار گھومنے اور کھانے کے بعد بھی چاہنے والوں کے لیے نئے اور تازہ رہتے ہیں۔

 

جوائے لینڈ اور فورٹریس اسٹیڈیم

فورٹریس اسٹیڈیم لاہور کے علاقے کینٹ میں واقع ہے جو ایک بڑے تجارتی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے جس میں خریداری مرکز، ہوٹلز، کیفے، اسپورٹس اسٹیڈیم، سینما ہال اور تفریحی پارک شامل ہے۔ اِس اسٹیڈیم میں میلہ مویشیاں کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں نایاب نسل کے جانور نمائش کے لیے پیش کیے جاتے ہیں اور خوبصورت گھوڑوں کا رقص پیش کیا جاتا ہے۔ پاک فوج کے جوان ہزاروں فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگاتے ہیں اور ملٹری پولیس کے بینڈز خوبصورت دھنیں پیش کرتے ہیں۔

خواتین کی شاپنگ کی خواہش ہو یا ڈنر کا پلان، نوجوانوں نے ایک ساتھ تھیٹر انجوائے کرنا ہو یا بچوں نے تفریحی پارک میں جھولوں اور آئس کریم کے مزے لینے ہوں، فورٹریس اسٹیڈیم ایک بہترین انتخاب ہے۔

 

سوزو واٹر پارک

لاہور میں سوزو واٹر پارک ایک آبی تفریحی پارک ہے جسے ایک فیملی پارک کا درجہ حاصل ہے۔ یہ جلو پارک کے قریب واقع ہے جسے تھائی لینڈ کے ایک پارک کی طرز پر تیار کیا گیا ہے۔ اِس پارک میں خواتین، بچے اور وہ افراد بھی پانی میں کھیل کود سکتے ہیں جو تیرنا نہیں جانتے کیونکہ پانی کی سطح ایک خاص لیول تک رکھی جاتی ہے۔ پانی کو موسم کے مطابق ایک موزوں درجہ حرارت تک رکھا جاتا ہے۔ اِس پارک کی سب سے دلچسپ بات واٹر سلائیڈ ہے جو نوجوانوں اور بچوں کی بہت پسندیدہ ہے۔ بچوں کی عمر اور قد کو مد نظر رکھتے ہوئے نسبتاً کم اونچائی کی سلائیڈز بنائی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے موسمِ گرما میں سوزو واٹر پارک میں سیاحوں کا رش ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

 

ڈبل ڈیکر بس پر لاہور کی سیر

تانگہ لہور دا ہووے تے بھاویں جھنگ دا، تانگے والا خیر منگ دا۔

یہ نہ صرف بول ہیں ایک مشہور پاکستانی فلمی گانے کے بلکہ اس میں پرانے زمانے کی ایک مشہور اور قابلِ ذکر سواری کا نام ہے۔

قدیم زمانے میں تانگہ گاڑی وہ سواری تھی جس پر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے یا سیرو تفریح کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ لاہور شہر میں اس کو ایک خاص اہمیت حاصل تھی اور ہوا خوری کے شوقین افراد بھی اسی کا انتخاب کرتے تھے۔ پھر وقت گزرا اور موٹر گاڑیوں نے سڑکوں پر جگہ لینا شروع کی۔

اور آج لاہور شہر میں محکمہ سیاحت کی بدولت ڈبل ڈیکر بس لوگوں کو تفریح کے لیے سڑکوں پر گھماتی ہے۔ یہ بس مخلتف مقامات سے گزرتی ہے جس کا معمولی کرایہ لیا جاتا ہے۔ بچے اور خواتین خاص طور پر اس کی سیر پسند کرتے ہیں۔

 

ایئر سفاری سروس

جہاز کی سیر بہت سے لوگوں کی خواہش ہوتی ہے۔ لیکن کچھ افراد دوسرے شہروں کے مہنگے ٹکٹس خرید کر یہ خواہش پوری نہیں کر سکتے۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایئر سفاری سروس شروع کی گئی جس کی بدولت شہری اپنے بچوں کے ہمراہ انتہائی کم خرچ پر لاہور اور دیگر شہروں کا فضائی دورہ کر سکتے ہیں۔

 

لاہور، غیر مُلکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز

پنجاب کا دل لاہور اپنے مخصوص انداز، روایات اور ایشیائی ثقافت و اقدار کی بناء پر ہمیشہ سے غیر ملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ یورپین سیاح ہوں یا پاکستان کے ہمسایہ ممالک سے مہمان تشریف لائے ہوں، لاہور ان کی اولین ترجیح ہوتا ہے جس کا اظہار وہ اپنے وی لاگز پر مبنی پیغامات میں کرتے ہیں۔

 

لاہور کے مشہور بازار

شہر کے قدیم بازار ثقافتی میلوں کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ لاہور کے پرانے بازاروں کی طرح کچھ ایسے مشہور بازار ہیں جو نامور برینڈز کے علاوہ روایتی اور مشرقی لباس، جوتوں، جیولری، اور بیگز سے بھرے ہیں۔ ان میں قابلِ ذکر انارکلی بازار، لبرٹی مارکیٹ، ایم ایم عالم روڈ، گلبرگ مین مارکیٹ اور ہول سیل کی پرانی شاہ عالم مارکیٹ ہے۔

لاہور شہر کی یہ جداگانہ خصوصیات نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ پوری دنیا میں اپنے مداح رکھتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ لاہور میں رہنے والے بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ لہور لہور اے۔

مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔

invest with imarat Islamabad’s emerging city
centre
Learn More
Scroll to Top
Scroll to Top